(علامہ لاہوتی پراسراری)
ایک ایسے شخص کی سچی آپ بیتی جوبیدائیش سے اب تک اورلیاءجنات کی سرپرستی میں ہے اس کے دن رات جنات کے ساتھ گزرہے ہیں۔
قارئین کے اصرار پر سچے حیرت انگیز دلچسپ انکشفات قسط وارشائیع ہورہے ہیں لیکن اس پر اسرار دنیا کو سمجھنے کیلئے بڑا حوصلہ اور حلم چاہیے۔
استاد فوقانی ثانی اور محدث جن کی عیادت: استاد فوقانی ثانی سے میری محبت پیار اور دلچسپی بڑھ گئی‘ مجھے احساس ہوا کہ ان کے اندر اللہ نے کوئی اور خصوصی صفات رکھی ہیں ویسے تو صفات ہر انسان اور جن میں ہوتی ہیں اور اولیاء نیک یا عام جنات میں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں‘ میری سب سے پہلی ملاقات ان سے اس وقت ہوئی تھی جب میں اپنی جناتی سواری پر سفر کرتا ہوا ایک دور افتادہ پہاڑی غار میں ایک محدث جن کی عیادت کرنے جارہا تھا‘ مجھے عبدالسلام جن نے بتایا کہ وہ بہت بیمار ہیں اور مسلسل آپ کو یاد کرتے ہیں‘میں انہیں ڈھونڈتا ڈھانڈتا آخر پہنچ گیا‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے‘ بہت خوش ہوئے میں نے ان کیلئے کچھ شفائی تدابیر کیں جس کی وجہ سے انہیں اسی وقت فوری فائدہ ہوا اور دل کا اور جسم کا سکون میسر ہوا۔ بہت خوش ہوئے‘ مجھ سے فرمانے لگے: میرا ایک شاگرد ہے میں اسے بلوانا چاہتا ہوں آپ اس سے ملاقات کرو‘ وہ کائنات کے تہہ در تہہ سربستہ رازوںکو بہت اچھی طرح جانتا ہے اور یہ تہہ در تہہ سربستہ راز اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت کھولے ہیں‘ وہ کبھی ایک جگہ بیٹھا نہیں حتیٰ کہ اپنی شادی کے دن بھی وہ بیٹھا کسی باکمال سے ملاقات کررہا تھا اور بیوی اس کا انتظار کررہی تھی وہ ہمیشہ کھوجوں میں اور تلاشوں میں زندگی کے دن رات گزارتا ہے‘ اس کا ہر پل ہر سانس ہر لمحہ ہر لحظہ کائنات کے رازوں میں لگا رہتا ہے‘ اس کی زندگی‘ اس کی سانسیںا ور اس کا وجود اتنا زیادہ قیمتی ہے کہ (وہ محدث ٹھنڈی سانس بھر کرکہنے لگے) اے کاش! میری زندگی کے باقی سال بھی اسے لگ جائیں۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ ہمارے پاس آگئے‘ ایک اونچی اور رعب دار آواز میں سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی انہوں نے اس محدث استاد کے پاؤں اور کندھے دبانے شروع کردئیے۔ میری طرف انہوں نے کوئی بھی توجہ نہ دی‘ میں ان کی خدمت میں بیٹھا رہا تھوڑی ہی دیر میں اس محدث نے میرا تعارف اس جن سےکرایا‘ کہنے لگے: اس کا نام فوقانی ہے‘ (چونکہ میں پہلے بھی ایک فوقانی جن کے شاگرد سے مل چکا تھا‘
اس لیے اپنے دل ہی دل میں اس کا نام فوقانی ثانی رکھ دیا) پھر اس کے بعد اس محدث نے اس کا مزید تفصیلی تعارف کروایا۔فوقانی ثانی جن سے گفتگو اور کائنات کے سربستہ راز: تھوڑی ہی دیر میں وہ فوقانی ثانی جن میری طرف مائل ہوئے‘ اور یوں سلسلہ گفتگو کا چلنا شروع ہوگیا۔ گفتگو میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں جن کا تعلق کائنات کے سربستہ رازوں میںسے ہے‘ اگر میں ان کا اظہار کروں تو عام عقل انسانی اور انسانی شعور احساس و ادراک اس کو کبھی سمجھ نہ پائیں لیکن آج کی نشست میں میں کچھ ایسی چیزیں اپنے قارئین کو بطور امانت پہنچانا چاہتا ہوں جس کا انہیں بہت یقینی فائدہ اور ان کو یقینی نفع ہوگا۔ایک تسبیح اور بے حساب مغفرت: پہلی چیز جو فوقانی ثانی جن نے بتائی وہ یہ تھی اگر کوئی بندہ یہ چاہتا ہے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو اور آخری وقت میں کلمہ نصیب ہو‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سچا قرب اور سچا ساتھ ملے‘ قبر جنت بن جائے‘ محشر کا حساب و کتاب سوال و جواب نہایت آسان ہو اور آخرت میں پل صراط کا راستہ سہولت سے پار ہوجائے۔ نامہ اعمال قیامت کے دن اللہ بے حساب بخش دے‘ جنت میں استقبال ہو فرشتوں کا ساتھ ہو‘ حوروں کی قدردانی نصیب ہو‘ تو ایسا آدمی اگر روزانہ صرف ایک تسبیحاس کیفیت کے ساتھ پڑھے اور یہ صرف سوتے وقت پڑھنی ہے اول و آخر تین بار درود شریف اور کیفیت یہ ہو کہ یااللہ! میں دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہوں‘ ساری دنیا کی بخشش ہوگئی‘ لیکن میری نہیں ہوسکتی ہاں تیری شان کریمی ہوگی تو ہوجائے گی اور میرے جرم ناقابل معافی ہیں‘ لہٰذا اپنے اس صفاتی نام کی برکت سے مجھے بخشش کا سامان دے۔ بس یہ ایک تسبیح ہو لیکن ہو ایسی جو جسم کے روئے روئے اور انگ انگ کو اللہ کی ذات کی طرف متوجہ کردے۔
فوقانی ثانی جن کی بات نے مجھے حیران کردیا:اس فوقانی ثانی جن نے یہ کیا عجیب حیرت انگیز بات بتائی میں خود حیران ہوگیا میں لفظ کی طرف اگر دیکھتا ہوں تو سمجھ آتی ہے اور جب اس فوقانی ثانی جن کے لہجے رویے اور سچے انداز کی طرف پھر بھی سمجھ آتی ہے اور بہت زیادہ آتی ہے۔ میں ان کی بات سن رہا تھا۔عام سے مسلمان جن کا لاجواب خاتمہ
بالخیر: اسی دوران فوقانی ثانی نے ایک بات سنائی کہنےلگے: ہمارے جنات کی دنیا میں ایک شخص تھا کوئی بہت بڑا نیک متقی نہیں تھابلکہ عام سا مسلمان تھا‘ میں نے اس کے مرنے سے تقریباً بہت سال پہلے اسے یہی عمل بتایا تھا کہ وہ شخص سوتے ہوئے وضو ہے یا نہیں ہے‘ پاک ہے یا نہیں ہے ہر جگہ ہر حالت میں بس ایک تسبیح رات سوتے وقت اول و آخر تین بار درود شریف کی پڑھے۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے وہ فوت ہوا تو مجھے اس کے گھر والوں نے بتایا کہ آخری لمحے میں کہنے لگا کہ قرآن لے آؤ‘ قرآن سامنے لایا گیا تو وہ قرآن کو بہت خوش الحانی سے بہترین لہجے سے اور خوبصورت آواز سے پڑھنے لگ گیا حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھا‘ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتا تھا لیکن اس وقت وہ بہترین انداز سے قرآن پڑھ رہا تھا اور قرآن پڑھے جارہا تھا حتیٰ کہ اسی نشست میں اس نے بہت خوبصورت انداز میں قرآن کا ڈیڑھ پارہ پڑھ لیا اور قرآن واپس کیا اور سب کو متوجہ کیا: لوگو! میں اپنے گناہوں سے معافی مانگتا ہوں اللہ کی نافرمانی سے معافی مانگتا ہوں جس کا دل دکھایا اان سب تک میرا پیغام پہنچا دینا میں معافی مانگتا ہوں‘ اللہ پر ایمان‘ فرشتوںپر ایمان‘ اس کی کتابوں‘ اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہوں‘ خیر اور شر اللہ کی طرف سے ہے‘ اس پر ایمان لاتا ہوں‘ مرنے کے بعد کی زندگی ہے اس پر ایمان لاتا ہوں‘ لوگوں میرے ایمان پر گواہ رہنا‘ میری توبہ کے گواہ رہنا‘ بس اس طرح کی خیر کی باتیںکرتا‘ کلمے کا ورد کرتا کرتا وہ اس زندگی سے رخصت ہوکر آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پاگیا۔ یہ ایک موت نہیں:یہ ایک موت نہیں ایسی بے شمار اعلیٰ قسم کی کئی شاندار اموات میں نے اپنی زندگی میں پائی ہیں ۔فوقانی ثانی جن مزید کہنے لگا:ورد بہت مختصر لیکن اس کا کمال بہت زیادہ ہے کیونکہ ہر شخص نے مرنا ہے وہ انسان ہو یا جن‘ موت ایک حقیقت ہے اور جو موت کی حقیقت کو پاگیا وہ زندگی کی حقیقت کو پاگیا اور جو موت کو بھول گیا وہ زندگی کو بھی ہمیشہ کیلئے بھول گیا‘ موت اصل ہے زندگی اصل نہیں اور آخری لمحے قیامت تک موت کا ذائقہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے۔قارئین! یہ تجربہ اور انوکھا مشاہدہ اس کے بعد میں نے بے شمار لوگوںکو بتانا شروع کردیا اور بہت عرصہ دراز تک میں نے اس کو بتایا اور اب بھی بتارہا ہوں۔ علامہ صاحب کا انوکھا خواب: ایک رات میں سویا ہوا تھا‘ میں نے ایک خواب دیکھا اور وہ انوکھا خواب تھا۔ میرے پاس بہت سے لوگ تھے جن کے خوبصورت لباس‘ خوبصورت چہرے اور خوبصورت جسم تھے وہ کوئی جنتی سواریوں پر سوار تھے۔ مجھے علم نہیں کہ وہ سواریاں کیا تھیں بس ایک احساس ہورہا تھا کہ تیز رفتار سواریاں ہیں جو لمحوں میں لاکھوں میلوںکا سفر طے کرلیتی ہیں۔ وہ سب میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے ان کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ میں نے بھی مسکرانا شروع کردیا وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تیرے اس کی وجہ سے آخرت میں سرخرو ہوئے جب اللہ کے سامنے حاضر ہوئے تو اللہ نے ہمارے اس اسم اور توبہ کی وجہ سے مغفرت کا پروانہ دیا‘ ہم سارے کے سارے آپ سے ملنے آئے ہیں اور یہ خوشخبری دینے آئے ہیں کہ آپ کی وجہ سے جتنے لوگوں کی بخشش ہوئی ‘ وہ دن رات آپ کیلئے بہت زیادہ دعائیں کرتے ہیں کہ یااللہ جو ہماری بخشش کا ذریعہ بنا‘ یااللہ اس کی بخشش بھی کردے اور اسے بھی معاف کردے اور اسے بھی ہماری طرح اعلیٰ سے اعلیٰ بہتر سے بہتر جنت عطا فرما اور مزید ہنستےہنستے مجھے انہوں نے ایک بات کہی کہ حضرت علامہ صاحب آپ اگر اس عمل کو پوری دنیا کیلئے پھیلادیں تو بے شمار لوگوں کا فائدہ ہوگا کئی خطاکار اور گناہ گار بخشے جائیں گے اور کئی لوگ اللہ کا قرب پائیں گے اور اللہ کی محبت پائیں گے۔مغفرت کی ’’ماسٹرکی‘‘ آپ کی خدمت میں: قارئین! جب میں اس خواب سے بیدار ہوا تو میرے دل میں آیا کہ اس عمل کو اور اس کیمیا نسخےکو پھیلانا چاہیے یہ ایک چابی ہے بلکہ ماسٹرکی ہے مخلوق خدا کا آخرت‘ اللہ کے ساتھ تعلق‘ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ تعلق اس سے بہتر اور کس طرح ہوسکتا ہے بس یہ جذبہ ہے جس نے مجھے فوقانی ثانی جن کے اس عمل کو پھیلانے پر مجبور کیا۔ اس لیے میں اب یہاں ان صفحات میں اس عمل کو پھیلانے کیلئے آج اعلان عام کررہا ہوں اس کے بعد بھی مجھے فوقانی ثانی جن سے کئی میری ملاقاتیں ہوئیں اور فوقانی ثانی جن نے مجھے اور بھی بے شمار سینکڑوں ہزاروں واقعات بتائے۔ بقول ان کے میرے مشاہدے اور تجربے میں سینکڑوں ہزاروںلوگ ہیں جن کا خاتمہ اس عمل کی وجہ سے آسان ہوا اور اچھا ہوا۔ فوقانی ثانی جن کا انسانی روپ میں آنا:انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے کہ ایک میدانی علاقے میں جہاں سخت شدت کی گرمی تھی‘ میں جارہا تھا تو اس میدانی علاقے میں مجھے ایک جھونپڑی نظر آئی نامعلوم مجھے کیا ہوا میں اس جھونپڑی کے قریب اتر گیا‘ وہ انسانوں کی جھونپڑی تھی‘ اس میں تین مرد‘ پانچ عورتیں اور انیس بچے تھے‘ وہ لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے‘ ان کی باتوں سے مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک فیملی ہے جس میں بچے بھی ہیں‘
جوڑے بھی ہیں اور کچھ بوڑھے لوگ بھی ہیں۔ وہ نیک لوگوں کا گھرانہ نظر آتا تھا لیکن غریب لوگوں کا۔ وہ اس بات پر بیٹھے فکر کررہےتھے کہ ہم سارے گھر والے کیسے نمازی بن جائیں‘ قرآن پاک کی تلاوت روز کیسے کریں‘ ہمارا دل اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کیسے جڑ جائے‘ یہ فکر اور غم تھا جو انہیں بٹھائے بیٹھاتھا۔ فوقانی ثانی جن کوملیں برکات: مجھے ان کے سچے جذبے نے ان کےقریب بیٹھنے کا مزہ دیا چونکہ میںجن تھا اور ان کے قریب بیٹھا تھا ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا لیکن مجھے احساس ہوا کہ ان کےقریب بیٹھنے سے مجھےبرکات ملیں۔ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ ان لوگوں کو کا عمل بتادوں۔ میں ایک مسافر پردیسی کے روپ میں نمودار ہوا جو کہ یہاں سے گزر رہا تھا اور میں نے اپنی شکل انسانی بنالی اور میں انسانوںکے روپ میں ان کے سامنے جب پہنچا تو انہوں نے میرا استقبال کیا اور مجھے پردیسی مسافر سمجھ کرمیری خاطر مدارت کی۔فوقانی ثانی جن کا جھونپڑی مکینوں کیلئے تحفہ: میں نے ان کی خاطر مدارت قبول کی اور جاتے جاتے میں نے انہیں کہا کہ آپ نے میری اتنی خدمت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک تحفہ دے کر جاؤں اور پھر میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ چاہتےہیں کہ آپ کا خاتمہ ایمان پر ہو قیامت کے دن اللہ کاسامنا ہو اور اللہ راضی ہوا ور اللہ آپ کو دیکھ کر مسکرائے اورآپ کی مغفرت ہو تو صرف یہ کام کریں کہ کی ایک تسبیح سوتے وقت پڑھنےکی مکمل ترکیب بتادی‘ وہ میری بات سن کر بہت خوش ہوئے ان کے گھر میں کوئی تحفہ یا ہدیہ نہیں تھا لیکن ان کی چاہت تھی کہ کسی طرح ہم اس پردیسی کو کوئی ہدیہ دے کر ہی بھیجیں۔ انہوں نے اصرار کیا میں نے انکار کیاکیونکہ وہ بہت سفید پوش اور غریب لوگ تھے میں وہاں سے چل پڑا اور چلتے چلتے مجھے ایک ایسے فرد سے واسطہ پڑا کہ جو طرح طرح کی بیماریوں‘ تکالیف‘ مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا تھا۔ دنیا کے غریب آخرت کے امیر: میں نے محسوس کیا زندگی میں تو اس نے تکلیفیں‘ پریشانیاں‘ دکھ بہت دیکھے لیکن آخرت میں بھی اگر یہ تکلیفیں ‘پریشانیاں‘ دکھ دیکھے گا تودنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ لہٰذا یہ دنیا میں تو غریب رہے لیکن آخرت کا امیر رہے۔ میں نے اسے یہی تسبیح اور یہی وظیفہ یعنی کا یہ عمل بہت تفصیل سے بتایا اس کے کچھ فائدے برکات اور کمالات اسے بتائے۔ وہ حیران ہوا مجھ سے کہنے لگا میں سارا دن فارغ ہوں اگر میںسارا دن ہی پڑھتا رہوں‘ میں نے کہا پڑھ سکتے ہو اور عمل تو یہی ہے کہ سوتے ہوئے ایک تسبیح نہایت خشوع وخضوع‘ دھیان توجہ‘ بے چینی‘ بے کلی‘ بے قراری سے کرنا ہے اور اس کے کمالات آخرت میں وہ کھلیں گے جو آپ سوچ نہیں سکتے۔ اس نے پڑھنا شروع کردیا‘ پھر میں کچھ عرصہ کے بعد گزرا تو دیکھا تو وہ پریشان اور ویران شخص نہیں تھا۔سجی سجائی جنت آنکھوںکے سامنے: مجھے حیرت ہوئی کہ وہ حیران و پریشان شخص آخر کہا ںگیا؟ میں نے لوگوں سے پوچھا تو لوگ کہنے لگے وہ فوت ہوگیا۔ میں نے کہا اس کی موت کی حالت مجھے بتاسکتے ہیں اس کو کتنی بری یا اچھی موت آئی۔ کہنے لگے: ہاں ہم بتاتے ہیں وہ تین دن پہلے بالکل ٹھیک ہوگیا‘ ایسے تھا جیسے اس کو بیماری ہے ہی نہیں‘ تین دن کے بعد جب آخری لمحہ اس کا پہنچا وضو کیا‘ نمازپڑھی‘ نماز پڑھنے کےبعد اس نے دو نفل پڑھے‘ دو نفل کے بعد مسلسل پڑھتا رہا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی رو رو کر اونچےاونچے بولوں میںمعافی مانگتا رہا‘ اس نے سب کو بلایا کہا دیکھو میں نے زندگی میں کوئی بڑے گناہ نہیں کیے اور کچھ زیادہ نیکیاں نہیں کیں۔ ایک نیکی ہے میرے پاس ایک درویش ملا تھا اس نے مجھے آخری وقت میںسوتے وقت کی تسبیح بتائی تھی آج جنت سجی سجائی میری آنکھوں کے سامنے ہے اس کے حسین مناظر اور اس کے کمالات اس کی خوشبوئیں اس میں فرشتے‘ غلام‘ حوریں اللہ نے سب پردے مجھ سے ہٹا دئیے ہیں اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں‘ قبر میں مجھے بچھو‘ سانپ اور اندھیرا نظر نہیں آرہا ہے‘ قبر میں مجھے بچھونے‘ حور‘ نورانیت اور نور نظر آرہا ہے۔ لوگو! تم بھی کبھی اس کو نہ بھولنا جو بھی پڑھتا ہے اسے حیرت انگیز طور پر آخرت کی بہتری ملتی ہے اور دنیا میں بھی اس کے بہت فوائد ملتےہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں